ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اپنی پریس کانفرنس میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہم اس مہینے کی برکات سے مستفید ہو سکیں گے اور یہ مہینہ تمام مسلمانوں کے لیے امن و سلامتی کا حامل ہو گا۔
یوکرین کے صدر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس ملاقات کو سب نے دیکھا اور ہر کوئی ملاقات کے انداز اور اس میں اٹھائے گئے موضوعات پر اپنی اپنی رائے رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اور ہمارے خطے کے لیے جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ علاقائی امن و استحکام ایک باہمی مسئلہ ہے، اور خطے کے ممالک کو چاہیے کہ وہ مغربی ایشیا اور خلیج فارس میں استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت قومی و علاقائی طاقتوں پر انحصار کریں اور اس سلسلے میں کسی تیسرے فریق کی طرف امید اور بھروسہ کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔
ایران اور لبنان کے درمیان تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بقائی نے کہا کہ ایران اور لبنان کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے جو ہمیشہ سے باہمی احترام پر مبنی ہے۔ ہمارے لبنانی عوام اور حکومت کے ساتھ بہت اچھے مراسم ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران اور لبنان کے تعلقات، اقوام متحدہ کے دو ارکان کی حیثیت سے تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین پر مبنی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا لبنانی مزاحمت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ لبنانی مزاحمت ایک اٹوٹ حقیقت ہے جو لبنانی حکومت کے لیے بہت مددگار اور اسے مستحکم کرنے والا عنصر ہے۔
بقائی نے امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے مغربی کنارے کا نام تبدیل کرنے کے فیصلے کے جواب میں کہا کہ نام کی تبدیلی زمینی حقائق کو نظر انداز یا بدل نہیں سکتی۔ مغربی کنارہ اور غزہ کو تاریخی فلسطین کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور یہ حقیقت کہ یہ سرزمین فلسطینی قوم کی ہے کسی بھی طرح سے قابل اعتراض یا تبدیلی کے تابع نہیں ہے۔ نام کی تبدیلی کی یہ کوششیں کچھ امریکی سیاست دانوں کے مقاصد کے مطابق ہیں جو فلسطینی ثقافت اور شناخت کو مٹانا چاہتے ہیں۔ یہ اقدام انسانیت کے خلاف جرائم کو سہولت فراہم کرنے اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کے حصول کو روکنے کے لیے امریکی حکومت کے طرز عمل کی علامت ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے غزہ پر اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے کہا کہ یہ دوسرا اجلاس ہے جو ایران کی درخواست پر اور مقبوضہ فلسطین کے سلسلے میں منعقد ہوا۔ اس سربراہی اجلاس اور گزشتہ اجلاسوں میں فرق یہ ہے کہ غاصبین کی طرف سے فلسطینی عوام کو بے گھر کرنے کے لیے کچھ منصوبے پیش کیے گئے تھے۔ اس حوالے سے عرب لیگ کی سطح پر ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور جمعہ کو ہونے والا جدہ اجلاس اس مسئلے پر بات کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ اس اجلاس کا متفقہ پیغام یہ ہوگا کہ اسلامی برادری کسی بھی حالت میں مقبوضہ فلسطین میں نسلی تطہیر پر رضامند نہیں اور یہ اجلاس ایسے منصوبوں کی مخالفت کے لیے ایک متفقہ اور فیصلہ کن پوزیشن کی راہ ہموار کر سکتا ہے کیونکہ یہ منصوبے نسل کشی کے منصوبوں کے سوا کچھ نہیں۔
ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں رافائیل گروسی کے حالیہ بیانات کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں بقائی نے کہا کہ ہم کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل سے اپنے فرائض کے مطابق کام کرنے کی توقع ہے۔ قیاس آرائیوں پر مبنی رائے کا اطلاق نہ تو ڈائریکٹر جنرل کے فرائض کے دائرہ کار میں ہے اور نہ ہی اس سے مسئلہ حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح کے بیانات ہرگز حقیقت پر مبنی نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے یہ بات کئی بار ثابت ہو چکی ہے کہ یہ پروگرام بین الاقوامی فریم ورک کے ساتھ ساتھ سیفٹی معاہدے اور این پی ٹی کے مطابق ہے۔ اٹامک ایجنسی کے پاس نگرانی کے لیے تمام ضروری سہولیات موجود ہیں۔ دوسری طرف، ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کے پرامن نیوکلیئر کے خلاف تحریک بعض مغربی ممالک کے مطالبات کے دائرے میں چل رہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی رپورٹس کی بنیاد زیادہ تر سیاسی مسائل پر مبنی ہے۔
آپ کا تبصرہ